بھارت کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے مشہور پہاڑی مقام اوٹي میں ایک آدم خور شیر کو کئی دنوں کی جستجو کے بعد مار دیا گیا ہے۔
جنوبی بھارت کے پہاڑی مقام اوٹي میں جنگل سے ملحقہ چائے کے باغات میں تین خواتین کو ہلاک کرنے والے اس آدم خور شیر کو پکڑنے کی مہم شروع کی گئی تھی
شیر نےگزشتہ کئی دنوں سے علاقے میں دہشت پھیلا رکھی تھی اور اسے پکڑنے کے لیے 150 مسلح افراد اس کی تلاش میں سرگرم تھے۔
نيلگري ضلع کلکٹر کے دفتر کے ایک اہل کار نے بی بی سی ہندی کو بتایا کلیکٹر اور محکمۂ جنگلات کے افسران جنگل کے اندر ہیں جب کہ شیر گولی لگنے کے بعد مر گیا ہے۔
انھوں نے بتایا ’شیر کے مارے جانے کی تصدیق ہو چکی ہے‘۔
اس آدم خور شیر کی دہشت کا عالم یہ تھا کہ ارد گرد کے دیہات میں اس کی تلاش کے لیے 65 کیمرے لگائے گئے تھے۔
اس شیر نے اپنا پہلا شکار 4 جنوری کو کیا تھا اور 33 سالہ خاتون کی ادھ کھائی لاش اگلے دن لوگوں کو ملی تھی۔
آدم خور شیر نے تین دن بعد اپنا دوسرا شکار کیا جو 58 سال کی ایک بوڑھی عورت تھی۔
شیر نے
اس خاتون پر تب حملہ کیا جب وہ چائے کے باغات سے اپنے ایک ساتھی مزدور کے ساتھ گھر لوٹ رہی تھیں۔
اس آدم خور شیر کو تین دن پہلے علاقے کے كڈاچي گاؤں میں ایک لڑکے نے دیکھا تھا اور بعد میں یہ شیر وہاں سے بھاگ گیا تھا۔
گھنے جنگلوں پر مشتمل یہ علاقہ جنوبی بھارت کی تین ریاستوں تمل ناڈو، کرناٹک اور کیرالہ میں بٹا ہوا ہے۔ اس علاقے میں شیر کے آدم خور ہونے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
گزشتہ سال نومبر کے آخری ہفتوں میں ایک شیر نے کرناٹک کے باديپر ون علاقے میں تین لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ ہفتوں کی تلاش کے بعد اس آدم خور شیر کو پکڑ لیا گیا تھا اور اسے میسور کے چڑیا گھر بھیج دیا تھا۔
سنہ 2011 میں ہونے والی ’شیر شماری‘ کے نتائج کے مطابق بھارت میں اب صرف 1700 شیر باقی رہ گئے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سنہ 1947 میں بھارت میں تقریباً 40 ہزار شیر تھے لیکن پہلے راجہ مہاراجاؤں کے شکار کے شوق اور پھر مشرقی ایشیائی ممالک میں دواؤں میں استعمال کے لیے شیروں کے اعضا کی بھرپور مانگ کی وجہ سے ان کی تعداد تیزی سے کم ہوتی چلی گئی۔